Kharan
ریاست خاران
عبداللہ
ہیبت خان
میر محمود خان
میر ابراہیم اول
یوسف خان
بہرام خان
امیر عباس خان اول
نواب حبیب اللہ خان نواب آف خاران جنہوں نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا |
خاران کی ریاست بلوچستان کے علاقے مکران سے ملحق اور اس کے بعض علاقوں پر قائم تھی۔ ریاست خاران کا قیام شیروانی خاندان کے سرداروں کے باعث ہوا ریاست خاران کا اقتدار ہمیشہ ہی نوشیروانی قبیلے کے تسلط میں رہا جو اپنے آپ کو ایرانی بادشاہ نوشیروان کی اولاد میں سے بتاتا ہے
ریاست خاران کا جھنڈہ جو قیام پاکستان کے وقت تک خاران کے مختلف علاقوں میں لہراتا رہا |
خاران کے حکمران اور ان کا شجرہ نسب
پرویز
جہانگیر اول
خسرو
پرویز
جہانگیر اول
خسرو
جمشید
عبداللہ
ہیبت خان
میر محمود خان
میر ابراہیم اول
یوسف خان
بہرام خان
امیر عباس خان اول
خاندان نوشیروانی امیر عباس خان اول غالبا چودھویں صدی عیسوی کے شروع میں یا تیرہویں صدی کے آخر میں میں اپنے خاندان کے چند افراد کے علاوہ کافی رخشانی بلوچوں کے ہمراہ ایرانی بلوچستان سے بوجہ تکرار و تنازعات یا اس دور میں ایران پر منگولوں کی حکومت قائیم تھی اور چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کی سرکردگی میں منگول حکومت ایسے کسی بھی گروہ کو ایران اور اس کے گردو نواح مین برداشت نہیں کرپا رہی تھی جن سے انہیں کوئی خطرہ لاحق ہوجاتا۔۔۔
خاران آکر قلعہ جہلوار جو ساسانی خاندان کا بنا ہوا تھا جو اس دور میں کھنڈرات تھا مگر اس کے آثار اس قدر مضبوط تھے کہ ان پر کسی بھی طرح کی عمارت قائم کی جاسکتی تھی ۔۔۔۔بنا کر قیام پذیر ہوئے اور اپنی بلوچی حکومت قائم کی
امیر محمود خان
امیر ملک دوستین ۔ ۔۔۔۔۔۔۔جب قلات کے آخری حکمران خاندان احمد زئی خاندان کے جد میر واڑی میر بجار نے قلات پر لاشاریوں اور رندوں کی حکومت کا خاتمہ کرنے اور اپنی حکومت کو قائم کرنے کے لیئے فوج کشی کی۔ تو اس وقت اس نے خاران کے حکمرانوں سے بھی مدد طلب کی جس کے نتیجے میں امیر ملک دوستین اپنی فوج کے ہمراہ احمد زئیوں کی مدد کے لیئے قلات پہنچا ۔ یوں احمد زئی قبائیل نے قلات پر مشترکہ حملے کے نتیجے میں فتح حاصل کی اس فتح کے بعدمیر بجار میر واڑی نے امیر ملک دوستین کووڈھ اور کچھ دیگر علاقے امیر ملک دوستین کو دیئے۔۔۔۔
خاران آکر قلعہ جہلوار جو ساسانی خاندان کا بنا ہوا تھا جو اس دور میں کھنڈرات تھا مگر اس کے آثار اس قدر مضبوط تھے کہ ان پر کسی بھی طرح کی عمارت قائم کی جاسکتی تھی ۔۔۔۔بنا کر قیام پذیر ہوئے اور اپنی بلوچی حکومت قائم کی
امیر محمود خان
امیر ملک دوستین ۔ ۔۔۔۔۔۔۔جب قلات کے آخری حکمران خاندان احمد زئی خاندان کے جد میر واڑی میر بجار نے قلات پر لاشاریوں اور رندوں کی حکومت کا خاتمہ کرنے اور اپنی حکومت کو قائم کرنے کے لیئے فوج کشی کی۔ تو اس وقت اس نے خاران کے حکمرانوں سے بھی مدد طلب کی جس کے نتیجے میں امیر ملک دوستین اپنی فوج کے ہمراہ احمد زئیوں کی مدد کے لیئے قلات پہنچا ۔ یوں احمد زئی قبائیل نے قلات پر مشترکہ حملے کے نتیجے میں فتح حاصل کی اس فتح کے بعدمیر بجار میر واڑی نے امیر ملک دوستین کووڈھ اور کچھ دیگر علاقے امیر ملک دوستین کو دیئے۔۔۔۔
عبدالقادر خارانی بلوچ اپنی کتاب مجموعہ بلوچ تاریخ خارا ن میں لکھتے ہیں کہ ۱۵۴۰ میں قلات پر قابض ہونے کے لیئے اور قلات پر سے رند اور لاشار قبائیل کے قبضے کو ختم کروانے کے لیئے احمد زئی قبائیل قلات کے حکمران قبیلے نے قلات پر حملہ کیا تو اس حملے میں اس کے ساتھ خاران کے حکمران امیر ملک دوستین نوشیروانی اور ان کی فوجیں بھی شامل تھیں اس طرح یہ تاریخی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ خاران کی ریاست قلات کی ریاست سے کافی قدیم ہے
امیر ابراہیم سوئیم
میر حمت اول
امیر پردل خان
میر حمت اول
امیر پردل خان
1730 سے 1745 تک
ء1734میں ایران کے نادر شاہ افشار اور ریاست خاران کے حمکران امیر پردل خان کا تنازعہ بڑھ کر خونریز جنگوں مین تبدیل ہو گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد مں ایرانی اورخاران کے باشندے ہلاک ہوئے مگر اس جنگ میں نادر شاہ افشار کو کامیابی اور خاران کے حکمران امیر پردل کو شکست کے بعد دونوں حکمرانوں میں صلح ہوئی۔
صلح کے معاہدے کے میں نادر شاہ افشار نے خاران کے حکمران امیر پردل کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے جو سند جاری کی۔۔۔۔۔۔۔ اس کے مطابق امیر پردل کو خاران کے مندرجہ زیل علاقوں کا حکمران تسلیم کیا گیا جو درج زیل ہیں
رخشانی،ریکی، سربازی، جدگال، کیچ و تمب،بم پور ، کولواہ،قصر قند، گہنہ، صافل، جالک، وزک، اس کے علاوہ جالک ، وزک بمپور، سرحد مزار خان، اور رود بار میر کی بیابت یا آمدنی مکمل طور پر امیر پردل خان کو دے دی یہ سند آج بھی خاران کے نوشیر وان خاندان کے پاس موجود ہے
خاران کے نوشیروانی حکمرانوں نے کبھی بھی قلات کے (براہوئی) احمد زئی حکمرانوں کی بالادستی کو قبول نہیں کیا ہمیشہ قلات کے حکمرانوں کو اپنا برابر تصور کیا اگر چہ کے دونوں شاہی خاندانوں کے درمیاں رشتے داریاں بھی قائم ہوئی مگر اس کے باوجود دونوں ریاستوں کے درمیاں متعدد بار جنگ و جدل بھی برپا ہوئی ہمیشہ ہی قلات اور خاران کے حکمرانوں کے درمیان اقتدار کی جنگ جاری رہی ۔
ء1734میں ایران کے نادر شاہ افشار اور ریاست خاران کے حمکران امیر پردل خان کا تنازعہ بڑھ کر خونریز جنگوں مین تبدیل ہو گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد مں ایرانی اورخاران کے باشندے ہلاک ہوئے مگر اس جنگ میں نادر شاہ افشار کو کامیابی اور خاران کے حکمران امیر پردل کو شکست کے بعد دونوں حکمرانوں میں صلح ہوئی۔
صلح کے معاہدے کے میں نادر شاہ افشار نے خاران کے حکمران امیر پردل کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے جو سند جاری کی۔۔۔۔۔۔۔ اس کے مطابق امیر پردل کو خاران کے مندرجہ زیل علاقوں کا حکمران تسلیم کیا گیا جو درج زیل ہیں
رخشانی،ریکی، سربازی، جدگال، کیچ و تمب،بم پور ، کولواہ،قصر قند، گہنہ، صافل، جالک، وزک، اس کے علاوہ جالک ، وزک بمپور، سرحد مزار خان، اور رود بار میر کی بیابت یا آمدنی مکمل طور پر امیر پردل خان کو دے دی یہ سند آج بھی خاران کے نوشیر وان خاندان کے پاس موجود ہے
خاران کے نوشیروانی حکمرانوں نے کبھی بھی قلات کے (براہوئی) احمد زئی حکمرانوں کی بالادستی کو قبول نہیں کیا ہمیشہ قلات کے حکمرانوں کو اپنا برابر تصور کیا اگر چہ کے دونوں شاہی خاندانوں کے درمیاں رشتے داریاں بھی قائم ہوئی مگر اس کے باوجود دونوں ریاستوں کے درمیاں متعدد بار جنگ و جدل بھی برپا ہوئی ہمیشہ ہی قلات اور خاران کے حکمرانوں کے درمیان اقتدار کی جنگ جاری رہی ۔
امیر شہداد خان نوشیروانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ امیر پردل کے بڑے صاحبزادے تھے ان کا اقتدار خاران کی ریاست کے ایرانی حصوں پر قائم تھا جو اس وقت ایران کا حصہ ہیں ان ہی کہ پاس کوہ نور ہیرا بیان کیا جاتا ہے
میرشاہو نوشیروانی یہ امیر پردل کے چھوٹے صاحبزادے تھے اور امیر پردل کی نادر شاہ افشار کے پاس قید کے دوران خاران کے پاکستانی حصوں کے حکمران رہےتھے قید کے دوران امیر پردل نے میر شاہو کو ہی اپنا جانشیننامزد کیا تھا جاری ہے
امیر میر عباس
امیر میر جہانگیر
امیر میر عباس چہارم
امیر آزاد خان
امیر میر نوروز خان
امیر میر عباس
امیر میر جہانگیر
امیر میر عباس چہارم
امیر آزاد خان
امیر میر نوروز خان
امیر میر یعقوب خان
1911
امیر محمد حبیب اللہ خان
امیر محمد حبیب اللہ خان
1911–1955
امیر میر مصطفی خان
امیر عبدالرحمان خان
خاران کے حکمران حبیب اللہ خان نے مئی 1947 کو خاران میں جلسہ کیا اس جلسہ میں خارا ن کے تمام عوام نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا
ریاست قلات کی پاکستان شمولیت سے قبل ریاست خاران اور ریاست لسبیلہ کے حکمرانوں اور عوام نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کردیا
ریاست قلات کی پاکستان شمولیت سے قبل ریاست خاران اور ریاست لسبیلہ کے حکمرانوں اور عوام نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کردیا
امیر میر مصطفی خان
امیر عبدالرحمان خان
حوالہ کتاب۔
تاریخ خاران صفحہ نمبر 91 ۔مصنف عبدالقادر بلوچ خارانی