خاران کی علیحدہ اور آزاد حیثیت
اور ریاست قلات
دونوں ریاستوں کے درمیان 1939 میں اس وقت آخری باقائدہ جنگ ہوئی جب قلات کے احمد زئی حکمرانوں نے خاران پر فوج کشی کی جو انگریز کمشنروں کی وجہ سے جلد ہی اختتام پذیر ہوئی ۔خاران کو گر چہ قلات کے حکران اپنی زیلی ریاست کے طور پربیان کرتے تھے
جو( جو مشہور بلوچ تاریخ دان عبدالقادر خارانی کے مطابق محض خیالات پر مبنی تھے) مگر ان کی اس بالا دستی کو کبھی بھی خاران کے نواب میر حبیب اللہ نوشیروانی اور لسبیلہ کے نوابوں اورمکران کے سرداروں نے تسلیم نہیں کی۔
اس بارے میں ممتاز تاریخ دان اور محقق میر عبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 10 اورصفحہ نمبر 11 پر اس طرح سے لکھتے ہیں
میر گل خان نصیر کی کتاب تاریخ بلوچستان جلد اول اور دوئم کے علاوہ تاریخ خوانین بلوچ میں بھی خاران کی سرزمین اور والیان خاران سے متعلق کوئی اہم تذکرہ شامل نہیں بلکہ خطہ خاران کو بلوچوں کو بھی ریاست قلات اور احمد ذئی خاندان کی رعیت شمار کرکے حقائق سے رو گردانی کی گئی ہے حالانکہ والیان خاران اور بلوچان خاران کبھی بھی کسی ریاست کے محکوم نہیں رہے۔ بلکہ اکثر مشکل اور نا مساعد حالات میں ریاست قلات کے خوانی اور امرا اکثر اوقات نوشیروانی خاندان اور خارانی بلوچوں کے ہاں بطور باہوٹ پناہ لے چکے ہیں
اور اہل خاران نے ہر طرح سے ان کی مدد اور حفاظت کرکے بلوچی رواداری اور مہمان نوازی کی روایات کا پاس رکھا ہے
یہ بات سراسر ذاتیات اور حسد پر مبنی ہے کہ خاران کے امرا ریاست قلات کے مطیع اور محکوم رہے ہیں کیونکہ نوشیروانی خاندان رخشانی احمد ذئی خاندان کے برسراقتدار آنے سے کئی پشت پہلے اس خطہ میں ایک بلوچی آزاد و خود مختار ریاست کے حاکم تھے
ممتاز تاریخ دان اور محقق میرعبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 11 میں مزید لکھتے ہیں کے تاریخ حقیقتا ایک سچی اور غیر متعصبانہ کتاب ہوتی ہے جس میں کسی قوم کے ماضی کو پیش کیا جاتا ہے لیکن خاران سے کسی بھی مورخ نے انصاف نہیں کیا
میرعبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 11 میں مزید لکھا ہے کے جس نے بھی اس خطہ پر قلم اٹھایا تو اس نے کہیں نہ کہِں اس سرزمین کے ساتھ زیادتی کی ہے تاریخ خوانین بلوچ اور تاریخ بلوچستان ۔ میر گل خان نصیر نے اپنی کتاب میں خاران کو بلا ثبوت و اثبات ریاست قلات کا ایک حصہ قرار دینے کی سعی کی ہے حالانکہ ریاست قلات کی اصل تاریخ اور ریکارڈ میں اس بات کی کوئی شہادت نہیں کہ خاران اور خارانی بلوچ کبھی بھی قلات کے باجگزار یا رعیت رہے ہیں تاریخ خوانین جس کو قابل احترام میر احمد یار خان کے نام سے لکھی گئی ہے لیکن اصل لکھنے والے نے اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیئے خاران کو بے جا طور پر قلات کا ایک جزو قرار دیا ہے یا پھر خان صاحب نے از خود دور حاضر کے تقاضوں کے تحت بلوچ اتحاد کے پیش نظر اس امر کو دہرایا ہےممتاز تاریخ دان اور محقق میرعبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 11 میں مزید لکھتے ہیں اسی طرح میر گل خان نصیر نے بھی اسی طرح بے جا تصور پیش کیا ہے اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ انہوں نے احمد ذئی خاندان کے ساتھ اپنی وفاداری اور نمک حلالی کا ثبوت دیا ہے جب کہ احمد ذئی خاندان نے ان کے قبیلے زگر مینگل پر بے شمار مہربانیاں کی ہیں اور زگر مینگل ہی واحد قبیلہ ہے جو قلات کے عتاب کا شکار نہیں ہوا ہے ورنہ احمد ذئی خاندان سے بہادر ترین سرداران سراوان و جھالاوان نہ بچ سکے ہیں
جو( جو مشہور بلوچ تاریخ دان عبدالقادر خارانی کے مطابق محض خیالات پر مبنی تھے) مگر ان کی اس بالا دستی کو کبھی بھی خاران کے نواب میر حبیب اللہ نوشیروانی اور لسبیلہ کے نوابوں اورمکران کے سرداروں نے تسلیم نہیں کی۔
اس بارے میں ممتاز تاریخ دان اور محقق میر عبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 10 اورصفحہ نمبر 11 پر اس طرح سے لکھتے ہیں
میر گل خان نصیر کی کتاب تاریخ بلوچستان جلد اول اور دوئم کے علاوہ تاریخ خوانین بلوچ میں بھی خاران کی سرزمین اور والیان خاران سے متعلق کوئی اہم تذکرہ شامل نہیں بلکہ خطہ خاران کو بلوچوں کو بھی ریاست قلات اور احمد ذئی خاندان کی رعیت شمار کرکے حقائق سے رو گردانی کی گئی ہے حالانکہ والیان خاران اور بلوچان خاران کبھی بھی کسی ریاست کے محکوم نہیں رہے۔ بلکہ اکثر مشکل اور نا مساعد حالات میں ریاست قلات کے خوانی اور امرا اکثر اوقات نوشیروانی خاندان اور خارانی بلوچوں کے ہاں بطور باہوٹ پناہ لے چکے ہیں
اور اہل خاران نے ہر طرح سے ان کی مدد اور حفاظت کرکے بلوچی رواداری اور مہمان نوازی کی روایات کا پاس رکھا ہے
یہ بات سراسر ذاتیات اور حسد پر مبنی ہے کہ خاران کے امرا ریاست قلات کے مطیع اور محکوم رہے ہیں کیونکہ نوشیروانی خاندان رخشانی احمد ذئی خاندان کے برسراقتدار آنے سے کئی پشت پہلے اس خطہ میں ایک بلوچی آزاد و خود مختار ریاست کے حاکم تھے
ممتاز تاریخ دان اور محقق میرعبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 11 میں مزید لکھتے ہیں کے تاریخ حقیقتا ایک سچی اور غیر متعصبانہ کتاب ہوتی ہے جس میں کسی قوم کے ماضی کو پیش کیا جاتا ہے لیکن خاران سے کسی بھی مورخ نے انصاف نہیں کیا
میرعبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 11 میں مزید لکھا ہے کے جس نے بھی اس خطہ پر قلم اٹھایا تو اس نے کہیں نہ کہِں اس سرزمین کے ساتھ زیادتی کی ہے تاریخ خوانین بلوچ اور تاریخ بلوچستان ۔ میر گل خان نصیر نے اپنی کتاب میں خاران کو بلا ثبوت و اثبات ریاست قلات کا ایک حصہ قرار دینے کی سعی کی ہے حالانکہ ریاست قلات کی اصل تاریخ اور ریکارڈ میں اس بات کی کوئی شہادت نہیں کہ خاران اور خارانی بلوچ کبھی بھی قلات کے باجگزار یا رعیت رہے ہیں تاریخ خوانین جس کو قابل احترام میر احمد یار خان کے نام سے لکھی گئی ہے لیکن اصل لکھنے والے نے اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیئے خاران کو بے جا طور پر قلات کا ایک جزو قرار دیا ہے یا پھر خان صاحب نے از خود دور حاضر کے تقاضوں کے تحت بلوچ اتحاد کے پیش نظر اس امر کو دہرایا ہےممتاز تاریخ دان اور محقق میرعبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 11 میں مزید لکھتے ہیں اسی طرح میر گل خان نصیر نے بھی اسی طرح بے جا تصور پیش کیا ہے اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ انہوں نے احمد ذئی خاندان کے ساتھ اپنی وفاداری اور نمک حلالی کا ثبوت دیا ہے جب کہ احمد ذئی خاندان نے ان کے قبیلے زگر مینگل پر بے شمار مہربانیاں کی ہیں اور زگر مینگل ہی واحد قبیلہ ہے جو قلات کے عتاب کا شکار نہیں ہوا ہے ورنہ احمد ذئی خاندان سے بہادر ترین سرداران سراوان و جھالاوان نہ بچ سکے ہیں